Saturday, December 29, 2012

ہنستے بستے گھرانوں کی آزمودہ خوبیاں



بچے ماں باپ کی طرح اپنے عمل کے نتائج نہیں دیکھ سکتے۔ اس لئے بچہ کبھی

 کبھی ماں باپ کا حکم ٹالنے یا کسی طریقہ سے بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ بات کو پوری طرح سمجھنے میں اس کونسبتاً زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
چھوٹے بچوں کو پڑھانے والے استاد جب جھنجھلا جاتے ہیں تو کہا کرتے ہیں کہ بچوں کو پڑھانے کیلئے بہت سر کھپاناپڑتا ہے ۔ سینکڑوں بار سبق دہراﺅ تب کہیں جا کر وہ بچے کے ذہن نشین ہوتا ہے۔ یہ استاد زیادہ مبالغے سے کام نہیں لیتے۔ کوئی بات بچوں کے ذہن میں بٹھانے کیلئے بار باردہرانی پڑتی ہے۔ مضبوط خاندانوں کے والدین کو ایسی حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بار بار دہرائے بغیر بات نہیں بنتی۔ لہٰذا وہ یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ جھنجھلاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ بچے کو کوئی بات سمجھانی ہو تو اس کے جواز کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب بھی بتایا کیجئے۔ یوں ان کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
وہ ہمیشہ خوش نہیں رہتے:۔ مستحکم خاندان فریب کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ شیخ چلی کی دنیا میں نہیں رہتے۔ لہٰذا ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں۔ یہاں پھول ہیں تو کانٹے بھی ہیں۔ خوشیاں ہیں تو غم بھی ہیں۔ اس لئے وہ زندگی کو خوشیوں کا گہوارہ بنانے کی جدو جہد کرتے ہوئے یہ نہیں بھولتے کہ غم اور محرومیاں بھی ہمارے حصے میں آتی ہیں۔ ہم ان سے بچ نہیں سکتے۔ البتہ یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ جب ہمارے حصے کے دکھ ہمیں گھیر لیں تو ہم حوصلہ نہ ہاریں۔ ان کی گٹھڑی باندھ کر سر پر اٹھائے اٹھائے نہ پھریں۔ بلکہ ان کا مقابلہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مستحکم خاندان تسلیم کرتے ہیں کہ جب ماں بیمار ہوتی ہے والد کی ان کی مرضی کے خلاف ٹرانسفر ہو جاتی ہے یا کوئی عزیز داغ مفارقت دے جاتا ہے تو یہ سب رنج دینے والی باتیں ہیں۔ وہ مل جل کر ان مشکلات کاسامنا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ میرے ہمسائیوں میں سے ایک صاحب ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن میں درمیانے درجے کے افسر تھے۔ چند ماہ پہلے کارپوریشن میں ڈاﺅن سائزنگ شروع ہوئی تو غیر متوقع طور پر یہ صاحب بھی اس کی زد میں آ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز ان کو دفتر میں ملازمت کے خاتمے کا حکم نامہ تھما دیا گیا۔
میں نے آپ کو ان صاحب کا نام نہیں بتایا۔ اب سن لیجئے کہ ان کا نام حامد ہے ۔یہ تکلیف دہ بات تھی۔ حامد صاحب نے حواس بحال رکھے۔ دفتر سے گھر آئے۔ بیوی اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے دو بچوں کو لے کر ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان کو ساری بات بتائی۔ یہ بھی کہا کہ وہ افسوس کرنے کیلئے نہیں بیٹھے۔ بلکہ اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ نئی صورتحال کا مقابلہ کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ وہ چاروں تین گھنٹے گتھیاں سلجھاتے رہے۔ انہوں نے خاندانی کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ گھر کے اخراجات کا جائزہ لیا۔ ان میں نئے حالات کے مطابق رد و بدل کیا۔ دونوں بچوںنے پارٹ ٹائم ملازمت کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات کے بوجھ سے باپ کو آزاد کر سکیں۔ بیوی نے یہ طے کیا کہ مالی حالات بہتر ہونے تک وہ محلے کے پانچ سات بچوں کو ٹیوشن پڑھائے گی۔
حامد صاحب کے قصے میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ جب ان پر مصیبت کا وقت آیا تو وہ سر پکڑ کر نہیں بیٹھے نہ ہی انہوں نے بیوی بچوں کو بے خبر رکھا ۔ اس کے بجائے انہوں نے حوصلے اور سچائی سے کام لیا۔ بیوی بچوں کو بحران سے آگاہ کیا۔ سب نے مل کر نیا چیلنج قبول کیا۔ سب نے اپنا اپنا حصہ ادا کیا۔ یہ تو آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ حامد صاحب کے پاﺅں کاروبار میں جم رہے ہیں۔ 
وہ کوالٹی ٹائم میں یقین نہیں رکھتے:۔ مغربی دنیا میں اور اس کی دیکھا دیکھی دوسرے بر اعظموں میں بھی فیشن چل نکلا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ گزارنے کے لئے وقت طے کرنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح زندگی کی دوسری مصروفیات کیلئے وقت متعین کیا جاتاہے اس طرح بچوں کے معاملے میں بھی ہونا چاہے۔ چنانچہ والدین بچوں کے ساتھ گزارنے والے وقت کا تعین بھی کرنے لگے ہیں۔ خود کو تسلی وہ یوں دیتے ہیں کہ اگرچہ وہ بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے لیکن جو تھوڑا بہت وقت دیتے ہیں وہ بھرپور ہوتا ہے۔ گویا دورانیہ کم ہونے کے باوجود کوالٹی کے اعتبار سے وہ وقت بھرپور ہوتا ہے۔ اس کو (کوالٹی ٹائم) کہا جاتا ہے۔ 
مضبوط خاندانوں کی روش اس سے مختلف ہے۔ اس قسم کے خاندان میں والدین بچوں کو جتلا دیتے ہیں کہ ان کیلئے وقت کی کوئی قید نہیں۔ بچوں کیلئے وہ ہر وقت دستیاب ہیں۔ اس معاملے میں بسا اوقات ان کو دوسری مصروفیات سے وقت نکالنا پڑے توبھی وہ گریز نہیں کرتے۔ ایک بار میں ایک یونیورسٹی کانفرنس میں شریک تھا تو بتایا گیا کہ میری بیٹی کا فون آیا ہے۔ تب اس کی عمر صرف چار سال تھی۔ میں بہت پریشان ہوا اور فوراً ٹیلی فون والے کمرے کی طرف لپکا اور وہ مجھے ٹیلی فون پر بتانے لگی ” بچوں کا کارٹون پروگرام ” ڈزنی ہاور“ ہورہا ہے۔ بڑے مزے کا ہے ضرور دیکھیں۔ اپنی خوشی میں مجھے شریک کرنے کیلئے اس نے مجھے ڈیڑھ سو میل دور سے فون کیا تھا کیا اس قسم کے خاص لمحوں کو شیڈول کیا جا سکتا ہے۔
وہ روایت کی قدر کرتے ہیں:۔ خوش باش خاندانوں کی اپنی رسمیں‘ عادتیں اور روایتیں ہوتی ہیں وہ ان کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ روایات پورے خاندان کے لئے قوت کا اہم سرچشمہ ہوتی ہیں۔ بظاہریہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر وہ زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں اور خوشی کا باعث بنتی ہیں۔ میرے ایک دوست کے خاندان میں جمعہ کی رات کو ” پیزا نائٹ “ کہا جاتا ہے۔ وہ جمعے کی شام کو سب مل کر گھر سے نکلتے ہیں۔ تھوڑی دیر موٹر کی سیر سے لطف اٹھاتے ہیں اور پھر پیزا کھانے کیلئے کسی ریسٹورنٹ کا رُخ کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست حمید کا قصہ یہ ہے کہ وہ ہر مہینے دوستوں اور عزیزوں کی دعوت کرتے ہیں۔ بڑی محنت اور لگن سے اہتمام کرتے ہیں اور پھر اپنے پیارے لوگوں کو گھر میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ 
یہ چند باتیں ہمارے خاندان کو ہنستا بستا گھرانہ بنانے میں بہت معاون ہیں۔

No comments:

Post a Comment