Friday, November 7, 2014

اللہ تعالی بھی چاہتا ہے کہ

Allah wants
ہر بیوی چاہتی ہے کہ خاوند میرے پاس بیٹھ

ماں چاہتی ہے کہ بیٹا میرے ساتھ بیٹھے
باپ چاہتا ہے کہ بچے میرے پاس بیٹھیں

اللہ تعالی بھی چاہتا ہے کہ میرے بندے میرے پاس بیٹھیں ۔۔
 یعنی اللہ کے پاس بیٹھنے 
  کا مطلب ہے کہ ذکر میں بیٹھنا
اس سے باتیں کرنا
دعا کرنا
 اور اپنے دل کی باتیں بتانا

Saturday, December 29, 2012

آرائش حسن کیلئے سادہ نسخے


1-تازہ نیم گرم دودھ سے ہاتھ منہ دھونے سے چہرے کی رنگت نکھر آتی ہے۔ اس مقصد کیلئے آپ ایک پلیٹ میں دودھ ڈال کر روئی یا اسفنج کی مدد سے دودھ کو چہرے پرملیں۔ پندرہ منٹ بعد تازہ ٹھنڈے پانی سے چہرے کو دھو ڈالیں۔ دودھ چہرے کیلئے بہترین ٹانک ہے۔
2-اگر چہرے کی جلد خشک ہو تو بالائی کا استعمال کریں۔ ٹھنڈی بالائی کا مساج چہرے کو داغ دھبوں سے پاک کرتا ہے۔
3-گلیسرین اور لیموں کا رس ہم وزن ملا کر لگانے سے چہرے کی جلد کی قدرتی چمک اور خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔
4-جلد کو ملائم اور صاف ستھرا کرنے کیلئے ابلتے ہوئے پانی میں بیسن ملا کر اسے ٹھنڈا ہونے دیں اور پھر اس سے ہاتھ منہ اور پاﺅں صاف کریں۔ اس سے جلد ملائم اور صاف ہو جائے گی۔
5-سنگترے کے چھلکوں کو سکھا کر باریک پیس لیں اور سفوف کو پانی میں حل کر کے چہرے پر ملیں اس سفو ف سے چہرے کے داغ دھبے اور پھنسیاں دور ہو جائیں گی۔
6-مہاسوں کو دور کرنے کیلئے مسور کی دال کا ابٹن گائے کے دودھ میں ملا کر دن میں دو بار لگانا بہت مفید ہے۔ اس سے نہ صرف مہاسے دور ہوتے ہیں بلکہ چہرے کی رونق بھی بڑھتی ہے۔
7-روغن زیتون اور روغن کدو ہم وزن ملا کر لگانے سے چہرے پر دانوں اور مساموں کی وجہ سے پڑنے والے گڑھے ٹھیک ہو جاتے ہیں بلکہ یہ روغن چہرے پر چیچک کے داغوں کو بھی دور کرتا ہے۔ اس کو مسلسل چھ ماہ استعمال کرنے سے بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
8-ایک انڈہ لے کر پھینٹیں اور چہرے اور گردن پر اس کا ماسک لگائیں۔ بیس منٹ تک بالکل آرام سے لیٹ جائیں بعد میں تازہ پانی سے چہر ہ دھو ڈالیں۔ اس ماسک سے چہرے کی تازگی عود آئے گی کیونکہ انڈے کی سفیدی بہترین کلینر ہے۔
9-کھیرے کا رس جلد کیلئے بہترین چیز ہے۔ کھیرے کے رس میں تھوڑا سا دودھ ملا کر اس ٹانک کو چہرے پر لگائیں تو جلد ملائم اور صاف ہو جاتی ہے۔ کھیرے کی قاشوں سے چہرہ صاف اور ہمیشہ تروتازہ رہتا ہے۔ اس کا ٹانک چہرے کو دھوپ کی تمازت سے محفوظ رکھتا ہے۔ 
10-آلو چہرے کے داغ دھبوں کو دور کرنے کیلئے بھی بہترین چیز ہے۔ آلو کے قتلوں سے چہرے کوصاف کرنے سے چہرے کی جھریاں دور ہوتی ہیں۔
11-گوبھی میں ایسے وٹامنز موجود ہیں جو چہرے کی جلد کے لئے ٹانک کا کام دیتے ہیں۔ گوبھی کو تھوڑے سے پانی میں ابالیں پھر اس پانی کو ٹھنڈا کر کے ایک شیشی میں محفوظ کر لیں اس ٹانک کو چہرے کی جلد کیلئے استعمال کریں اس کے استعمال سے چھائیاں اور جھریاں ختم ہو جاتی ہیں۔
12-دہی بھی ایک قدرتی کلینر ہے ‘ روغنی اور کٹی پھٹی جلد کیلئے اس کا لیپ بہت مفید ہے۔ 
13-سنگترے کے چھلکوں کا سفوف دودھ میں شامل کر کے لگانے سے جلد میں نکھار آجاتا ہے۔
14-اگر چہرے کے مسامات کھل گئے ہوں تو ٹماٹر کا گودا دہی میں ملالیں اور چہرے پر لیپ کریں۔ سوکھنے پر چہرہ صاف کر لیں۔ یہ لئی مسامات بند کرنے کی بہترین چیز ہے۔
15-کھیرے کے رس میں نصف چمچہ گلیسرین اور اتنا ہی عرق گلاب ملا کر مرکب تیار کر لیں۔ روئی کے ساتھ اس آمیزے کو چہرے پر لگائیں۔ اس کے استعمال سے دھوپ کے داغ دھبوں سے نجات ملتی ہے اور سانولی رنگت نکھر آتی ہے۔
16-مچھلی کا تیل چہرے کی جھریوں اور داغ دھبوں کو دور کرتا ہے۔ اس دھوپ سے سانولاہٹ بھی دور ہوتی ہے۔
17-ملتانی مٹی کا باریک سفوف دودھ میں ملا کر چہرے اور گردن پر نصف گھنٹے تک لگانے سے چہرے کی جلد کو تقویت و توانائی ملتی ہے۔
18-جھائیوں کے خاتمے کیلئے ایک بہترین گھریلو نسخہ‘ بادام اور خشخاش کو ہم وزن لے کر ذرا سے پانی میں اتنی دیر بھگو رکھیں کہ وہ آسانی سے پیسا جا سکے۔ رات کو اس کا لیپ پورے چہرے پر لگائیں‘ صبح منہ دھو ڈالیں۔
19-خشک اور کھردری جلد کیلئے سنگترے کا گودا الگ کر کے چھلکے کو سکھا لیں۔ چھلکا خشک ہو جائے تو اسے باریک پیس کر سفوف بنا لیں۔ اس سفوف کے ہم وزن بیسن بھی ملا لیں اور تھوڑی سی ہلدی بھی ملا لیں۔ اس میں چنبیلی کا تیل ڈال کر ابٹن بنا لیںاور رات کو سونے سے پہلے چہرے پر ملیں۔ پندرہ منٹ بعد چہرہ نیم گرم پانی سے دھو ڈالیں بعد میں کوئی اچھا سا لوشن لگا لیں۔
20-جلد کو تروتازہ رکھنے کیلئے گھر میں ماسک زیادہ اچھا رہتا ہے۔ کھیرے کا ماسک ہر قسم کی جلد کیلئے اچھا ہے۔ ایک چمچ دہی میں چھلکے سمیت کھیرا کدو کش کر کے ڈالیں۔ اس میں ایک چمچ آٹا اور لیموں کے رس کے چند قطرے ملائیں۔رات کو سوتے وقت اس ماسک کو لگائیں ‘ بیس منٹ لگا رہنے دیں بعد میں سلاد کے پتوں کو ہلکے نیم گرم پانی میں ڈال دیں‘ نرم ہونے پر منہ پر رکھ لیں۔ تقریباً آٹھ منٹ بعد اتار دیں۔
21-خشک جلد اور خشکی کی وجہ سے سوزش ہو جائے تو درج ذیل نسخہ بہت مفید رہتا ہے۔عرق گلاب چار اونس‘ مچھلی کا تیل ایک اونس‘ روغن بادام ایک اونس۔ ان تینوں اشیاءکو اچھی طرح یکجان کریں۔ پھر اسے جلد پر لگائیں ۔ اگر آپ کی جلد خشک ہے اور جلد پر سوزش محسوس ہوتی ہے تو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ یہ مرہم جلد کو نرم و ملائم کرتا ہے اور رنگ بھی نکھر آتا ہے۔
22-درج ذیل نسخہ بھی بیحد مفید ہے۔ روز میری ۲۱ اونس‘ لیموں کے چھلکے ایک اونس‘ پودینہ ایک اونس‘ عرق گلاب ‘بام ایک اونس۔ ان تمام اشیاءکو ملا کر شیشی میں بند کر دیں۔ چار ہفتے کے بعد محلول کو چھان لیں۔ غسل کے بعد یہ لوشن ہتھیلی پر ڈال کر چہرے ‘ ہاتھوں‘ بازوﺅں اور تمام بدن پر مل لیں۔ اس نسخہ سے جسم نرم و ملائم ہو جاتا ہے۔
23-چہرے کی رنگت کے نکھار کیلئے کلونجی کو باریک پیس کر گھی میں مرہم بنا کر چہرے پر لگانے سے چہر ہ نکھر آتا ہے۔
24-کیل اور مہاسوں کیلئے پسی ہوئی کلونجی کو سرکہ میں ملا کر لیپ تیار کریں اور سونے سے قبل منہ پر لیپ کر لیں صبح اٹھ کر اچھے صابن سے منہ دھو ڈالیں۔ چند دن کے استعمال سے کیل مہاسے ختم ہو جائیں گے اور جلد میں نکھار آجائے گا۔
25-چھائیوں کے لئے ایک بہترین گھریلو نسخہ یہ ہے کہ خشخاش اور بادام ہم وزن لے کر تھوڑے سے پانی میں پندرہ بیس منٹ تک بھیگا رہنے دیں۔ پھر انہیں اتنا پیس لیں کہ لئی کی طرح ہو جائے اس مرہم کا لیپ رات کو چہرے پر لگائیں اور صبح دھو ڈالیں۔
26-چہرے کے علاوہ ہاتھوں کی صفائی بھی بے حد ضروری ہے۔ ہاتھوں کو خوشنما بنانے کیلئے ایک بہترین نسخہ نیچے دیا جا رہا ہے جو ہاتھوں کو نہ صرف ملائم بنا دے گا بلکہ ہاتھوں کی رنگت کو بھی نکھا ر دے گا۔
جئی کا آٹا چھ اونس‘ گرم پانی ایک لیٹر‘ لیموں کا رس ایک بڑا چمچ‘ روغن زیتون ایک چھوٹا چمچ‘ عرق گلاب ایک چھوٹا چمچ‘ گلیسرین ایک چھوٹا چمچ‘ ایمونیم ایک چھوٹا چمچ ۔ جئی کے آٹے کو گرم پانی میں ڈال کر رات بھر بھیگا رہنے دیں اگلی صبح اسے چھان لیں اب اس میں باقی اجزاءبھی شامل کر لیں اس محلول کو دن میں تین بار ہاتھوں پر ملیں۔ یہ ہاتھوں کی رنگت کو خوبصورت بنا دے گا۔

ہنستے بستے گھرانوں کی آزمودہ خوبیاں



بچے ماں باپ کی طرح اپنے عمل کے نتائج نہیں دیکھ سکتے۔ اس لئے بچہ کبھی

 کبھی ماں باپ کا حکم ٹالنے یا کسی طریقہ سے بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ بات کو پوری طرح سمجھنے میں اس کونسبتاً زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
چھوٹے بچوں کو پڑھانے والے استاد جب جھنجھلا جاتے ہیں تو کہا کرتے ہیں کہ بچوں کو پڑھانے کیلئے بہت سر کھپاناپڑتا ہے ۔ سینکڑوں بار سبق دہراﺅ تب کہیں جا کر وہ بچے کے ذہن نشین ہوتا ہے۔ یہ استاد زیادہ مبالغے سے کام نہیں لیتے۔ کوئی بات بچوں کے ذہن میں بٹھانے کیلئے بار باردہرانی پڑتی ہے۔ مضبوط خاندانوں کے والدین کو ایسی حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بار بار دہرائے بغیر بات نہیں بنتی۔ لہٰذا وہ یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ جھنجھلاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ بچے کو کوئی بات سمجھانی ہو تو اس کے جواز کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب بھی بتایا کیجئے۔ یوں ان کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
وہ ہمیشہ خوش نہیں رہتے:۔ مستحکم خاندان فریب کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ شیخ چلی کی دنیا میں نہیں رہتے۔ لہٰذا ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں۔ یہاں پھول ہیں تو کانٹے بھی ہیں۔ خوشیاں ہیں تو غم بھی ہیں۔ اس لئے وہ زندگی کو خوشیوں کا گہوارہ بنانے کی جدو جہد کرتے ہوئے یہ نہیں بھولتے کہ غم اور محرومیاں بھی ہمارے حصے میں آتی ہیں۔ ہم ان سے بچ نہیں سکتے۔ البتہ یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ جب ہمارے حصے کے دکھ ہمیں گھیر لیں تو ہم حوصلہ نہ ہاریں۔ ان کی گٹھڑی باندھ کر سر پر اٹھائے اٹھائے نہ پھریں۔ بلکہ ان کا مقابلہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مستحکم خاندان تسلیم کرتے ہیں کہ جب ماں بیمار ہوتی ہے والد کی ان کی مرضی کے خلاف ٹرانسفر ہو جاتی ہے یا کوئی عزیز داغ مفارقت دے جاتا ہے تو یہ سب رنج دینے والی باتیں ہیں۔ وہ مل جل کر ان مشکلات کاسامنا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ میرے ہمسائیوں میں سے ایک صاحب ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن میں درمیانے درجے کے افسر تھے۔ چند ماہ پہلے کارپوریشن میں ڈاﺅن سائزنگ شروع ہوئی تو غیر متوقع طور پر یہ صاحب بھی اس کی زد میں آ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز ان کو دفتر میں ملازمت کے خاتمے کا حکم نامہ تھما دیا گیا۔
میں نے آپ کو ان صاحب کا نام نہیں بتایا۔ اب سن لیجئے کہ ان کا نام حامد ہے ۔یہ تکلیف دہ بات تھی۔ حامد صاحب نے حواس بحال رکھے۔ دفتر سے گھر آئے۔ بیوی اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے دو بچوں کو لے کر ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان کو ساری بات بتائی۔ یہ بھی کہا کہ وہ افسوس کرنے کیلئے نہیں بیٹھے۔ بلکہ اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ نئی صورتحال کا مقابلہ کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ وہ چاروں تین گھنٹے گتھیاں سلجھاتے رہے۔ انہوں نے خاندانی کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ گھر کے اخراجات کا جائزہ لیا۔ ان میں نئے حالات کے مطابق رد و بدل کیا۔ دونوں بچوںنے پارٹ ٹائم ملازمت کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات کے بوجھ سے باپ کو آزاد کر سکیں۔ بیوی نے یہ طے کیا کہ مالی حالات بہتر ہونے تک وہ محلے کے پانچ سات بچوں کو ٹیوشن پڑھائے گی۔
حامد صاحب کے قصے میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ جب ان پر مصیبت کا وقت آیا تو وہ سر پکڑ کر نہیں بیٹھے نہ ہی انہوں نے بیوی بچوں کو بے خبر رکھا ۔ اس کے بجائے انہوں نے حوصلے اور سچائی سے کام لیا۔ بیوی بچوں کو بحران سے آگاہ کیا۔ سب نے مل کر نیا چیلنج قبول کیا۔ سب نے اپنا اپنا حصہ ادا کیا۔ یہ تو آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ حامد صاحب کے پاﺅں کاروبار میں جم رہے ہیں۔ 
وہ کوالٹی ٹائم میں یقین نہیں رکھتے:۔ مغربی دنیا میں اور اس کی دیکھا دیکھی دوسرے بر اعظموں میں بھی فیشن چل نکلا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ گزارنے کے لئے وقت طے کرنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح زندگی کی دوسری مصروفیات کیلئے وقت متعین کیا جاتاہے اس طرح بچوں کے معاملے میں بھی ہونا چاہے۔ چنانچہ والدین بچوں کے ساتھ گزارنے والے وقت کا تعین بھی کرنے لگے ہیں۔ خود کو تسلی وہ یوں دیتے ہیں کہ اگرچہ وہ بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے لیکن جو تھوڑا بہت وقت دیتے ہیں وہ بھرپور ہوتا ہے۔ گویا دورانیہ کم ہونے کے باوجود کوالٹی کے اعتبار سے وہ وقت بھرپور ہوتا ہے۔ اس کو (کوالٹی ٹائم) کہا جاتا ہے۔ 
مضبوط خاندانوں کی روش اس سے مختلف ہے۔ اس قسم کے خاندان میں والدین بچوں کو جتلا دیتے ہیں کہ ان کیلئے وقت کی کوئی قید نہیں۔ بچوں کیلئے وہ ہر وقت دستیاب ہیں۔ اس معاملے میں بسا اوقات ان کو دوسری مصروفیات سے وقت نکالنا پڑے توبھی وہ گریز نہیں کرتے۔ ایک بار میں ایک یونیورسٹی کانفرنس میں شریک تھا تو بتایا گیا کہ میری بیٹی کا فون آیا ہے۔ تب اس کی عمر صرف چار سال تھی۔ میں بہت پریشان ہوا اور فوراً ٹیلی فون والے کمرے کی طرف لپکا اور وہ مجھے ٹیلی فون پر بتانے لگی ” بچوں کا کارٹون پروگرام ” ڈزنی ہاور“ ہورہا ہے۔ بڑے مزے کا ہے ضرور دیکھیں۔ اپنی خوشی میں مجھے شریک کرنے کیلئے اس نے مجھے ڈیڑھ سو میل دور سے فون کیا تھا کیا اس قسم کے خاص لمحوں کو شیڈول کیا جا سکتا ہے۔
وہ روایت کی قدر کرتے ہیں:۔ خوش باش خاندانوں کی اپنی رسمیں‘ عادتیں اور روایتیں ہوتی ہیں وہ ان کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ روایات پورے خاندان کے لئے قوت کا اہم سرچشمہ ہوتی ہیں۔ بظاہریہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر وہ زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں اور خوشی کا باعث بنتی ہیں۔ میرے ایک دوست کے خاندان میں جمعہ کی رات کو ” پیزا نائٹ “ کہا جاتا ہے۔ وہ جمعے کی شام کو سب مل کر گھر سے نکلتے ہیں۔ تھوڑی دیر موٹر کی سیر سے لطف اٹھاتے ہیں اور پھر پیزا کھانے کیلئے کسی ریسٹورنٹ کا رُخ کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست حمید کا قصہ یہ ہے کہ وہ ہر مہینے دوستوں اور عزیزوں کی دعوت کرتے ہیں۔ بڑی محنت اور لگن سے اہتمام کرتے ہیں اور پھر اپنے پیارے لوگوں کو گھر میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ 
یہ چند باتیں ہمارے خاندان کو ہنستا بستا گھرانہ بنانے میں بہت معاون ہیں۔

Tuesday, December 11, 2012

کمینے کاموں اور گھٹیا اخلاق سے بچو


Beware of what works and crap bastard
حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خط میں یہ لکھا کہ حکمت و دانائی عمربڑی ہو نے سے حاصل نہیں ہو تی بلکہ یہ تو اللہ کی دین ہے جسے اللہ چاہتے ہیں عطا فرما دیتے ہیں اور کمینے کاموں اور گھٹیا اخلا ق سے بچو۔
 ( حیا ة الصحابہ حصہ سوم )

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہکو خط میں یہ لکھا اما بعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ جو اللہ سے ڈرتا ہے ، اللہ اسے ہر شر اور فتنے سے بچا تے ہیں اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام کاموں کی کفایت کرتے ہیں اور جو اللہ کو قرض دیتا ہے یعنی دوسروں پر اپنا ما ل اللہ کے لیے خر چ کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے بہترین بدلہ عطا فرماتے ہیں اور جوا للہ کا شکر ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نعمت کو بڑھا تے ہیں اور تقویٰ ہر وقت تمہارا نصب العین ، تمہارے اعمال کا سہار ااور ستون اور تمہارے دل کی صفائی کرنے والا ہونا چاہئے۔ جس کی کوئی نیت نہیں ہو گی اس کا کوئی عمل معتبر نہیں ہو گا۔ جس نے ثواب لینے کی نیت سے عمل نہ کیا اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔ جس میں نرمی نہیں ہو گی اسے اپنے مال سے بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ جب تک پہلا کپڑا پرانا نہ ہو جائے نیا نہیں پہننا چاہئے۔ ( حیا ة الصحابہ حصہ سوم )


گورنر کو خط

حضرت جعفربن بر قان رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک گور نر کو خط کے آخر میںیہ مضمو ن لکھا فراخی اور وسعت والے حالات میں سختی والے حساب سے پہلے ( جو قیا مت کے دن ہو گا) اپنے نفس کا خود محاسبہ کر وکیونکہ جو فرا خی اور وسعت والے حالات میں سختی کے حساب سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرے گا وہ انجام کار خوش ہو گا بلکہ اس کے حالات قابل رشک ہوں گے اور جس کو دنیا کی زندگی نے ( اللہ سے ، آخرت سے اور دین سے ) غافل رکھا اور وہ برائیوں میں مشغول رہا تو انجام کا ر وہ ندامت اٹھا ئے گا اور حسرت و افسوس کرتا رہے گا۔ جو نصیحت تمہیں کی جا رہی ہے اسے یا د رکھو تا کہ تمہیں جن کاموں سے روکا جا رہا ہے تم ان سے رک سکو۔ ( حیا ة الصحابہ حصہ سوم )

حضرت عمر نے حضرت علی سے فرمایا اے ابو الحسن!

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علیرضی اللہ عنہ سے فرمایا اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں ( یعنی روزی کاملنا یقینی ہے اس کی تلا ش میںا سطر ح اور اتنا نہ لگیں کہ گویا آپ کو اس میں کچھ شک ہے) اور اپنے علم کو جہا لت نہ بنا ئیں ( جو علم پر عمل نہیں کرتا وہ اور جا ہل دونو ں برابر ہیں ) اور اپنے گمان کو حق نہ سمجھیں ( یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طر ح حق نہ سمجھیں ) اور یہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صر ف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اور آپ نے اسے آگے چلا دیا یا تقسیم کر کے برابر کر دیا یا پہن کر پرا نا کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔ ( حیا ة الصحابہ حصہ سوم)

واپسی سفر پر کھانے کا اہتمام

حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (کسی اہم سفر کی ) واپسی پر مدینہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ یا گائے ذبح کیا۔ (آداب بہیقی، صفحہ ۸۳۴)

مشتبہ یا اجنبی آدمی کے کھانے سے احتیاط

حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا ہدیہ تناول نہیں فرماتے تھے جب تک کہ اس کے دینے والے پر اطمینان نہ ہو جائے، یا وہ خود اس میں سے نہ کھالے۔ (یہ اختیاط اس وقت سے ہوئی جب سے کہ خیبر میں بکری کا واقعہ (زہردینے کا) پیش آیا تھا)۔ (بزار جلد ۳، صفحہ ۹۲۳)

حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام القاحتہ میں تھے کہ ایک دیہاتی خرگوش لایا، جو بھنا ہوا اور عمدہ پکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ہدیہ پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ اس سے کھاﺅ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت ہوگئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا ہدیہ کھاتے نہیں تھے بکری کے اس واقعہ کے بعد جو خیبر میں پیش آیا تھا تاوقتیکہ لانے والا اس سے کھانہ لے۔ (سیرة صفحہ ۹۵۲)


کھانے کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ کیا ہے؟

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ کے یہاں آئے، ان کے یہاں بھنا گوشت پایا، جسے اس کی بہن حفیدہ نے بھیجا تھا۔ اس نے گوہ آپ کی خدمت میں (کھانے میں) پیش کر دیا اور کم ہی ایسا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی کھانا پیش کیا مگر یہ کہ اس کا نام ذکر کر دیا جاتا (کہ فلاں کھانا ہے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ کی جانب ہاتھ بڑھایا، حاضرین میں سے کسی عورت نے کہا کہ بتا دونا جو پیش کیا گیا ہے وہ گوہ ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کھینچ لیا۔ (اور تناول نہیں فرمایا)۔ (بخاری جلد ۲، صفحہ ۲۱۸)

کم کھانا ایمان کی شان ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں کھاتا ہے۔ (بخاری جلد ۲، صفحہ ۳۱۸)
علامہ عینی رحمة اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ حدیث ترغیباً ہے کہ مومن کثرت اکل سے پرہیز کرتا ہے، جوقساوت قلب کا باعث ہے اور کافر کی صفت ہے۔ (عمدہ جلد ۱۲، صفحہ ۱۴)

شکر کی اصل



شکر کی اصل.... محبت‘ ذلت اور سرنگوئی کے ساتھ صاحب نعمت کی نعمت کا اعتراف کرنا ہے.... جس کو نعمت کاشعور نہ ہو وہ شکر نہیں ادا کرسکتا اور جس کو شعور ہو اور اعتراف نہ ہو تو گویا اس نے شکر ادا نہ کیا اور جو نعمت اور صاحب نعمت کا شعور رکھتا ہو اور پھر بھی انکار کررہا ہو وہ کفر کے دائرہ میں داخل ہوگیا اور جسے نعمت اور منعم کا شعور بھی ہو اور اقرار و اعترف بھی‘ مگر خضوع‘ محبت اور رضا اس کی جانب سے نہ ہو اس نے بھی شکر ادا نہ کیا جس کے اندر نعمت اور منعم کے شعور کے ساتھ خضوع‘ محبت اور رضا تو ہو لیکن نعمت کو اللہ کی مرضیات اور اطاعت میں نہ لگایا ہو تو اس نے بھی شکر ادا نہیں کیا....غرض صحیح معنیٰ میں شکر کیلئے علم کے ساتھ منعم کی جانب میلان‘ محبت اور خضوع کا ہونا ضروری ہے۔ (علامہ ابن قیم جوزی از راہ سعادت)

اللہ کی کسی نعمت کا شکر یہ ہے کہ اس نعمت کو پھر معصیت کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے۔ (حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ)

شکر کے تین جز ہیں.... پہلے یہ کہ دل میں اس نعمت کی قدر ہو‘ دوسرے یہ کہ زبان سے شکر کررہے ہوں اورتیسرے‘ بدن سے نثار اور قربان ہورہے ہوں.... جب نعمت کا پورا شکر ادا کیا جاتا ہے تو اس نعمت میں اللہ تعالیٰ زیادتی کرتے ہیں اور اگر اس کی ناقدری ہورہی ہو تو گرفت بھی فرماتے ہیں۔ فرمایا: ”ہم‘ اس نعمت پر جو اللہ کی طرف سے ہے تینوں اجزاءوالا شکر ادا کریں تب شکر ادا ہوگا۔ آج ہم شکر کے صرف ایک جُز‘ زبان والے پر‘ قناعت کرلیتے ہیں۔ ہمیں بقیہ دونوں اجزا کیلئے متفکر ہونا اور کوشش کرنا بھی ہے۔ جب تک پورا بدن قربانی میں آگے نہیں بڑھے گا دل میں عظمت نہیں آئے گی۔ لہٰذا دین کا کام کرنے والوں میں شکر کی کیفیت کا بڑھانا ہے‘ جو اس قربانی میں بڑھتا رہے گا اس کی یہ نعمت بھی بڑھتی رہے گی۔ (مولانا انعام الحسن صاحب از دعوت کا فہم اور اس کی بصیرت)

Sunday, December 9, 2012

پتھر کا انتظار

http://www.awamipolitics.com/net-cafes-in-moon-market-lahore-exposed-on-sar-e-aam-10183.html



ایک متمول کاروباری شخص اپنی نئی جیگوار کار پر سوار سڑک پر رواں دواں تھا کہ دائیں طرف سے ایک بڑا سا پتھر اُسکی کار کو آ ٹکرایا۔
اُس شخص نے کار روک کر ایک طرف کھڑی کی اور تیزی سے نیچے اُتر کر کار کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھنا چاہا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ پتھر مارا کس نے تھا!!
پتھر لگنے والی سمت میں اُسکی نظر گلی کی نکڑ پر کھڑے ایک لڑکے پر پڑی جس کے چہرے پر خوف اور تشویش عیاں تھی۔
آدمی بھاگ کر لڑکے کی طرف لپکا اور اُسکی گردن کو مضبوطی سے دبوچ کر دیوار پر لگاتے ہوئے پوچھا؛ اے جاہل لڑکے، تو نے میری کار کو پتھر کیوں مارا ہے؟ جانتے ہو تجھے اور تیرے باپ کو اِسکی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
لڑکے نے بھرائی ہوئی آنکھوں سے اُس آدمی کو دیکھتے ہوئے بولا؛ جناب میں نے جو کُچھ کیا ہے اُسکا مجھے افسوس ہے۔ مگر میرے پاس اسکے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ میں کافی دیر سے یہاں پر کھڑا ہو کر گزرنے والے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی بھی رُک کر میری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ لڑکے نے آدمی کو گلی کے وسط میں گرے پڑے ایک بچے کی طرف اِشارہ کرتے
ہوئے بتایا؛ وہ میرا بھائی ہے جو فالج کی وجہ سے معذور اور چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔ میں اِسے پہیوں والی کُرسی پر بِٹھا کر لا رہا تھا کہ سڑک پر پڑے ایک چھوٹے گڑھے میں پہیہ اٹکنے سے کُرسی کا توازن بگڑا ا ور وہ نیچے گر گیا۔ میں نے کوشش تو بہت کی ہے مگر اتنا چھوٹا ہوں کہ اُسے نہیں اُٹھا سکا۔ میں آپکی منت کرتا ہوں کہ اُسے اُٹھانے میں میری مدد کیجیئے ۔ میرے بھائی کو گرے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے اِسلئے اب تو مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے۔۔۔ اِس کے بعد آپ کار کو پتھر مارنے کے جُرم میں میرے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں گے میں حاضر ہونگا۔ آدمی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، فورا اُس معذور لڑکے کی طرف لپکا، اُسے اُٹھا کر کرسی پر بٹھایا، جیب میں سے اپنا رومال نکال کر لڑکے کا منہ صاف کیا، اور پھر اُسی رومال کو پھاڑ کر ، لڑکے کو گڑھے میں گر کر لگنے والوں چوٹوں پر پٹی کی۔۔
اسکے بعد لڑکے نے آدمی سے پوچھا؛ جی جناب، آپ اپنی کار کے نقصان کے بدلہ میں میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟
آدمی نے مختصر سا جواب دیا؛ کچھ بھی نہیں بیٹے، مجھے کار پر لگنے والی چوٹ کا کوئی افسوس نہیں ہے۔
آدمی اُدھر سے چلا تو گیا مگر کار کی مرمت کیلئے کسی ورکشاپ کی طرف نہیں، کار پر لگا ہوا نشان تو اُس نے اِس واقعہ کی یادگار کے طور پر ویسے ہی رہنے دیا تھا، اِس انتظار کے ساتھ کہ شاید کوئی اور مجبور انسان اُس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اُسے ایک پتھر ہی مار دے۔۔۔

کیا ہم بھی کسی کی مدد کرنے کے لیے کسی پتھر کا انتظار کر رہے ہیں

http://convert.neevia.com/docs/8004de94-b111-44be-84f9-b362086edeff/New%20Rich%20Text%20Document.pdf

اٹیچی کیس کے راز



شادی کے دن نئی نویلی دلہن نے ایک اٹیچی کیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے شوہر سے وعدہ لیا کہ وہ اس اٹیچی کیس کو کبھی نہیں کھولے گا۔ شوہر نے وعدہ کر لیا۔
شادی کے پچاسویں سال بیوی جب بسترمرگ پر پڑ گئی تو خاوند نے اسے اٹیچی کیس یاد دلایا۔
بیوی بولی : " اب یہ وقت ہے اس اٹیچی کیس کے راز کو افشا کرنے کا۔ اب آپ اس اٹیچی کیس کو کھول لیں۔"
خاوند نے اٹیچی کیس کھولا تو اس میں سے دو گڑیاں اور ایک لاکھ روپے نکلے۔
خاوند کے پوچھنے پر بیوی بولی “میری ماں نے مجھے کامیاب شادی کا راز بتاتے ہوئے نصیحت کی تھی کہ غصہ پی جانا بہت ہی اچھا ہے۔ اسکے ماں نے مجھے طریقہ بتایا تھا کہ جب بھی اپنے خاوند کی کسی غلط بات پر غصہ آئے تو تم بجائے خاوند پر غصہ نکالنے کی بجائے ایک گڑیا سی لیا کرنا”۔


تو مجھے جب بھی آپ کی کسی غلط بات پر غصہ آیا میں نے گڑیا سی لی
خاوند دو گڑیاں دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کو کتنا خوش رکھا ہوا ہے کیونکہ بیوی نے پچاس سال کی کامیاب ازدواجی زندگی میں صرف دو گڑیاں ہی بنائی تھیں۔

خاوند نے تجسس سے اٹیچی میں موجود ایک لاکھ روپوں کے بارے میں پوچھا تو بیوی بولی
“یہ ایک لاکھ روپے میں نے گڑیاں بیچ بیچ کر اکٹھے کیے ہیں”۔